mansoorafaq.com

عطا الحق قاسمی

وہ شخص بہت بد نصیب ہے جو یادِ ماضی عذاب ہے یارب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا ایسی دعا مانگتا ہے ، اس کی زندگی میں یقیناایسے سانحے رونما ہوئے ہوں گے جن کے نتیجے میں اسے ماضی کی یادیں ایک ڈرائونے خواب کی طرح لگتی ہیں ۔ان کے مقابلے میں وہ لوگ یقینا خوش نصیب ہیں اور انہیں اس خوش نصیبی پر ہرسانس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے ۔ جن کا ماضی خوشگوار یادوں کا حامل ہے ۔ میں بھی انہی خوش نصیبوں میں سے ایک ہوں۔ گذشتہ ماہ کراچی میں مشتاق احمد یوسفی صاحب کی رہائش گاہ پر ان کی اہلیہ کی تعریف کے لیے حاضر ہوا تو انہوں نے ایک نہایت خوبصورت بات کہی ۔ ان کا کہنا تھا کہ زندگی میں انہوں نے کروفر بھی دیکھا ، تمام مادی سہولتیں بھی۔ انہیں میسر رہیں لیکن آج زندگی کے اس مرحلے میں انہیں اگر کچھ یاد ہے تو وہ احباب کی خوبصورت صحبتیں ہیں جن کا بدل کوئی نہیں ۔مجھے بھی اپناماضی (اور حال بھی )اس لیے عزیز ہے کہ ایسے لوگوں کی صحبت میسر آئی جن کے ظاہر باطن دونوں خوبصورت تھے اور ایسے دوست مجھے آج بھی میسر ہیں جن میں ایک منصور آفاق بھی ہے ۔ منصور آفاق عمر میں مجھ سے بہت چھوٹا اور علم میں مجھ سے بڑا ہے۔ اس سے میری پہلی ملاقات کب ہوئی یہ تو مجھے یاد نہیں لیکن اتنا ضرور یاد ہے ۔ کہ اس پہلی ملاقات کو ربع صدی سے زیادہ وقت گزر چکا ہے ۔ یہ ایک ہینڈ سم نوجوان تھا ، چہرے پر گھنی داڑھی اور گھنی مونچھیں ، کھلے گھیرے والی شلوار اور کرتا ! یعنی ہینڈسم ہونے کے باوجود اس کا گیٹ اپ ویسا ہی تھا جیسا ان دنوں دہشت گردوں کا ہے ویسے اس کے اندر ایک دہشت گرد چھپا ہوا بھی تھا مگر یہ صرف قلمی دہشت گرد ی تھا۔ اس نے ان دونوں کافی ’’ شرفا ‘‘ کی نیندیں حرام کیں میں اس دور میں ایم اے او کالج میں ’’ پروفیسری ‘‘ بھی کرتا تھا ، نوائے وقت کے لیے کالم بھی لکھتا تھا اور اردو صحافت میں اس طرز کے ادبی ایڈیشن کا بانی بھی جس کی نظیر اس سے پہلے نہیں ملتی تھی ۔ یہ ایڈیشن میں نے نوائے وقت میں شروع کیا اور اس کی بے پناہ سہولیت کے نتیجے میں آہستہ آہستہ تمام اخبارات اس کی تقلید میں اور اسی کے دیے ہوئے پیٹرن پر ادبی ایڈیشن نکانے پہ مجبور ہوگئے ۔ میں نے منصور آفاق سے درخواست کی کہ وہ ادبی ایڈیشن کے لیے کالم لکھنا شروع کر ے یہ صنف اس کے لیے نئی تھی ۔ وہ شاعر تھا ، ڈرامہ نگار تھا، نقاد تھا ، مگر کالم نگار نہیں تھا ، اس نے ’’ دیوار پر دستک ‘‘ کے عنوان سے کالم لکھنا شروع کیا اور پھر بہت کم عرصے ہی ادبی کالم نگاری میں اپنی جگہ بنالی ، آج وہ میرے نزدیک اے کلاس کا کالم نگار ہیں اس کا نہایت خوبصورت ہفتہ وار کالم پاکستان کے دو موقر اخبارات میں شائع ہوتا ہے اور قارئین سے داد وصول کرتا ہے۔ میں اپنے اور میں اس کے تعلقات کے بارے میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا چنانچہ نہ تو اس کے ادبی کارناموں کی تفصیل بیان کر سکوں گا نہ اس کے تخلیقی وفور کے بارے میں بات کروں گا جو اسے قدرت کی طرف سے ودیعت ہوا ہے اور جس کے بل بوتے پر وہ چوبیس گھنٹوں میں ایک پورا شعری مجموعہ ، ایک مکمل تنقیدی کتاب اور ٹیلویژن کے لیے ایک لانگ پلے تیار کر سکتا ہے نہ یہ بتائوں گا کہ اس کا لٹریچر کا مطالعہ کتنا وسیع ہے ،نہ ہی میں اس کے بے پناہ خلوس اور دوستداری کے واقعات آپ کو سنائوں گا جس کی مثالیں آج کے دور میں ذرا کم کم ہی ملتی ہیں۔ اور نہ ہی میں اس کے اربوں روپوں کے شرمندہ بقیہ نہ ہونے والے کاروبار منصوبوں کے بارے میں کچھ بتاسکوں گا۔ چنانچہ میں نے اپنے قلم کو آغاز ہی میں روک دیا ہے کیونکہ مجھے اس کا زیر نظر نعتیہ مجموعے کے حوالے سے کچھ باتیں عرض کرنا ہیں ۔ اور جہاں تذکرہ حضور ؐ کا ہووہاں کسی اور کے بارے میں گفتگو کو طول دینا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہوتا ! ’’ منصور آفاق نے جب مجھے اپنا یہ نعتیہ مجموعہ جسے آپ ایک طویل نعت بھی کہہ سکتے ہیں بلکہ شہر آشوب کے حوالے سے میں جسے اقبال دور حالی کی نعت کی ایکسٹینشن سمجھتا ہوں مجھے ارسال کیا تو میرا خیال تھا کہ یہ ایک معمول کا نعتیہ مجموعہ ہوگا جس میں منصور نے اپنی پوری تخلیقی قوت کے ساتھ حضور ؐ کی خدمت میں اپنی عقیدت کے پھول نچھاور کئے ہوں گے ۔ لیکن جب میںنے اس مجموعے کا مطالعہ شروع کیا تو مجھے لگا جیسے میں ایک غیر معمولی کیفیت میں مبتلا ہوتا چلا جارہا ہوں ، ایک شخص ہے جو حضور ﷺ کے قدموں میں گرا سسکیاں لے لے کر روتا ہے اور حضور ﷺ سے مسلم امہ کے احوال بیان کرتا ہے اور اس جذباتی کیفیت میںہی اس کی زبان سے جو الفاظ ادا ہورہے ہیں وہ بہت نرالے ہیں ، ان کا اسلوب انوکھا ہے اور ان میں اتنی تاثیر ہے کہ دل پگھلے جاتے ہیں مگر اس دوران وہ اپنے قاری کو بھی ساتھ لے کر چلتا ہے چنانچہ اس کاقاری اس عالمی منظرنامے کی سفاکیت سے بھی آگاہ ہوتا چلا جاتا ہے جس نے مظلوم اقوام خصوصاً مسلم امہ کو اپنے شکنجہ ء میں استبداد میں کیا ہوا ہے ۔ منصور آفاق صرف نالہ و فریاد ہی نہیں کرتا ۔ ظالموں کے ظلم کے خلاف آواز بھی اٹھاتا ہے اور مظلوموں کو ان کی ان کمزوریوں کا احساس بھی دلاتا ہے جس کے نتیجے میں آلام نے ان کے گھروں کا راستہ دیکھ لیا ہے ۔ مگر یہ سب کچھ ایک انداز سے بیان ہوا ہے ۔ اگر آپ اسے مبالغہ نہ سمجھیں تو مجھے لگتا ہے جیسے اس نعتیہ مجموعے کی نظمیں جو ایک طویل نظم کی طرح ہیں ۔ کسی ایسی کیفیت میں لکھی گئی ہیں جو خالق کائنات اس وقت کسی پر طاری کرتا ہے جب وہ اس پر بہت مہربان ہو! ’’ منصورآفاق کی یہ نعتیہ نظمیں پڑھتے ہوئے دھیان کبھی بہت پیچھے کی طرف چلا جاتا ہے کبھی آج کی صورت حال دھیان میں آتی ہے ۔ اور کبھی مستقبل کا خواب دکھائی دیتا ہے ۔ منصور آفاق بھی کیا کرے کئی صدیاں ہونے آئیں لیکن ہمارے زوال کا سفر ہے کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آتا۔ اور زوال بھی کیسا ! زندگی کا کوئی شعبہ اور کوئی گوشہ ایسا نہیں جو اس کے اثرات سے محفوظ ہو ۔ معیشت ہو یا سیاست، علوم و فنون ہوں یا تہذیب و تمدن ، ہماری حیاتِ اجتماعی کا ہر مظہر اس ہمہ گیر زوال کی دلیل بن چکا ہے ۔ عالمی حالات کے بارے میں کوئی بھی رائے قائم کرتے ہوئے یہ بات بھی نظر انداز نہیں ہونی چاہیے کہ اگر اس وقت دنیا کی آبادی چھ ارب ہے تو چار پانچ ارب لوگ کسی نہ کسی درجے میں ، کسی نہ کسی مذہب کے ساتھ وابستہ ہیں چنانچہ مجھے لگتا ہے کہ کرہ ٔ ارض پر انسانی مستقبل کی صورت گری میں مذاہب ایک اہم کردار ادا کریں گے ۔ خصوصاً ابراہیمی مذاہب یعنی یہودیت ، عیسایت اور اسلام ۔ اور صورت یہ ہے کہ عملاً ان میں سے دو مذاہب غالب حیثیت میں ہیں جبکہ ایک یعنی اسلام کے ماننے والے مغلوب ہیں ۔ اس صورتحال کا ذمہ دار کوئی بھی ہو یہ بہرحال حقیقت ہے کہ مسلمانوں کو اس مغلوبیت کے تمام تر نتائج بھگتنا پڑ رہے ہیں ۔ ان کے وسائل غیر وں کے قبضہ میں جارہے ہیں ۔ ان کی آبادیاں جدید ترین ہتھیاروں کی زد میں ہیں ۔ ان کے کھیتوں کھلیانوں میں دشمن طیارے بمباری کی مشقیں کررہے ہیں ۔ ا ن کے بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہو رہی ہیں ، ان کے شعائر کی توہین ہو رہی ہے ۔ انہیں عزت نفس سے محروم کیا جارہا ہے ۔ یہ صورتحال جہاں ایک عام درد مند اور حساس مسلمان کو متاثر کرتی ہے وہاں ایک ادیب اور شاعر پر بھی اس شدت کے ساتھ اثر انداز ہوسکتی ہے اور ہوتی رہی ہے ۔ جب منصور آفاق ایسا تخلیقی جوہر رکھنے والا شاعران موضوعات پر قلم اُٹھاتا ہے تو پھر ایسی تخلیقات وجود میں آتی ہیں جیسی زیر نظر کتاب میں آپ کے سامنے ہیں ۔ یہاں یہ وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے کہ ان نظموں کی اہمیت محض ان کے موضوعات کی عصری معنویت کے حوالے سے نہیں ہے ۔ ادب برائے ادب ہو یا ادب برائے زندگی ادب کی قدرمعین کرنے کے معیارات تو یکساں ہی رہیں گے ۔ نظم کی تحریک شاعر کو کسی داخلی جذبے سے ملے یا کسی خارجی واقعے سے ، محض اس بنیاد پر کوئی نظم اچھی یا بری قرار نہیں دی جاسکتی اور منصورآفاق اس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ ہے ۔ لہٰذا اس نے اس کتاب میں کوئی نظم ایسی شامل نہیں کی جو حالات بدلتے ہی متروک ہوجائے ۔ یہ نظمیں خالص شاعرانہ سطح پر بھی بلند پایہ ہیں اور ہمارے شعری سرمائے کا ایک مستقل حصہ بننے کے قابل ہیں ان نظموں کا خلوص ان میں موجود جذبے کی والہانہ سچائی اور جذبے کی صداقت انہیں وہ تاثیر عطا کردیتے ہیں جو کم کم ہی نظر آتی ہے ۔ ’’ کاش منصور آفاق ان دنوں پاکستان میں ہوتا یا جہاں کہیں بھی ہوتا ، اسے فکر معاش نہ ہوتی ، یہ فکر معاش، خصوصاً کسی مغربی ملک کی نفسانفسی والی فضا میں انسان سے بہت کچھ چھین لیتی ہے ۔ یہ صورت حال ان افراد کے لیے زیادہ کڑی ہوتی ہے ۔ جو ’’ مقامی ‘‘ نہیں ہیں ۔ چنانچہ انہیں اس معاشرے میں ’’ ایڈجسٹ‘‘ ہونے کے لیے اپنے جسم اور روح سے بہت سے سمجھوتے کرنا پڑتے ہیں جو ایک اضافی مشقت ہے ، تاہم مجھے یقین ہے کہ منصور آفاق کے لیے اس کی یہ نعتیہ نظمیں روحانی طاقت کا ذریعہ بنیں گی اور اس کے نتیجے میں اب وہ ہمیں اور بہت کچھ دے گا ۔ احمد ندیم قاسمی منصور آفاق کے بارے میں لکھتے ہیں مجھے منصور آفاق کے باطن میں تخلیقَ فن کے آتش فشاں کا سراغ برسوں پہلے مل گیا تھا۔پھر وہ انگلینڈ چلا گیا مگر میانوالی اور انگلینڈ کے درمیان جو تفاوت ہے اس نے اس کا کچھ نہیں بگاڑا بلکہ اس طرح اسے نئی شعری لفظیات بھی دستیاب ہوئی ہیں اور زندگی کے بارے میں نیا ویژن بھی، جس نے اس کی شاعری کو چار چاند لگا دئے ہیں۔۔۔۔۔۔ پروفیسر اسد مصطفی نے ان کے متعلق لکھا ہے تہذیبی لحاظ سے دورِحاضر چنگیز وہلاکو کے اس دور سے بھی فرومایہ کو تاہ ہے جب خون کی ندیاں بہائی گئی تھیں اور بصرہ و بغداد میں انسانی سروں کے مینار اٹھائے گئے تھے ۔ آج کے بیروت بغداد اورکابل شہر نہیں ، لہو سے لتھڑے ،انسانی ماس کے ٹکڑے سینے پر سجائے ظلم و بربریت کی ایسی علامتیں ہیں جو صدیوں تک جدید دنیا کے انسانیت کش کردارسے نفرت کا ذریعہ اظہار رہیں گی ۔ منصور آفاق نے اس ظلم و بربریت کے خلاف احتجاج آنحصور ﷺ کی بارگاہ میں ریکارڈ کر وایا ہے ۔ کہنے کو منصور آفاق شعرو ادب کی بھری دنیا میں اکیلا آدمی ہے جس نے یہ احتجاج کیا ہے ۔ لیکن وہ اکیلا نہیں ہے اس کے ہمراہ ایک ارب انسانوں کا وہ قافلہ ہے جو دنیا کو امن و آشتی کا گہوارہ دیکھنا چاہتے ہیں ۔جوظلمت مآب ماحول میں روشنی کی کسی کرن کی جھلک کے لیے بے چین ہیں۔جن کے چہرے بم دھماکوں،خودکش حملوں،بے گناہوں کے خون سے رنگین واقعات اورتہذیبی و معاشرتی نراج کی خبروں نے کملا دیے ہیں 

No comments:

Post a Comment