mansoorafaq.com

Sunday 28 October 2012

آسمانوں کے دفینے کی طرف آنکھیں ہیں





آسمانوں کے دفینے کی طرف آنکھیں ہیں
خاکِ طیبہ کے خزینے کی طرف آنکھیں ہیں

لوگ مشکل میں عبادت کریں واشنگٹن کی
شکر ہے اپنی مدینے کی طرف آنکھیں ہیں 

آ رہا ہے جو سرِ عرش سے میری جانب 
اُس اترتے ہوئے زینے کی طرف آنکھیں ہیں 

اِس میں اک نام دھڑکتا ہے بڑے زور کے ساتھ
اپنی تو اپنے ہی سینے کی طرف آنکھیں ہیں 

روضے کی جالیاں چھونے کا شرف جس کو ملا
اُس انگوٹھی کے نگینے کی طرف آنکھیں ہیں 

جس میں آیا تھا اجالوں کا پیمبر منصور
اُس بہاروں کے مہینے کی طرف آنکھیں ہیں 

 منصور آفاق 

تھا کون ، صبحِ طور کا مسکن تھا کون شخص




تھا کون ، صبحِ طور کا مسکن تھا کون شخص
کچھ پہلے کائنات سے روشن تھا کون شخص

تحریکِ کن فکاں کا سلوگن تھا کون شخص
بعد از خدا وجود میں فوراً تھا کون شخص

کس کا کہا خدا کا کہا ہے اک ایک لفظ
لوح و قلم کا خاک پہ درشن تھا کون شخص

بہتا ہے کس کے نام سے بادِ ازل کا گیت
آوازِ کُن کی صبح شگفتن تھا کون شخص

گجرے پُرو کے لائی تھی کس کے لئے زمیں
چیتر کی پہلی عصر کا جوبن تھا کون شخص

صحرا کی پیاس کون بجھاتا ہے اب تلک
منصور ریگزار میں ساون تھا کون شخص

منصور آفاق 



درود





درود اس پر کہ جس نے سر بلندی خاک کو بخشی
تجلیٰ آدمی کی قریہ ئ افلاک کو بخشی

درود اس پر کہ جو جمہوریت کا دین لایا تھا
جو لوگوں کی بھلائی کیلئے لوگوں میں آیا تھا

درود اس پر کہ جو جاگیرداری کا مخالف تھا
جہاں میں مال و زر کی شہر یاری کا مخالف تھا

درود اس پر کہ جس نے سود فرمایا بٹائی کو
کہا جائز فقظ اپنی ہی محنت کی کمائی کو

دروداس پر کہا جس نے کہ انساں سب برابر ہیں
زمیں پہ سب لکیریں کھینچنے والے ستم گر ہیں

منصور آفاق

جرم کی آخری انتہا





سنگ بستہ چٹانیں ہری ہو گئیں
مردہ شاخوں پہ خورشید کھلنے لگے

قم بادنی کا فن آگیا وقت کو
چاک صدیوں کے لمحوں میں سلنے لگے

صبح مغرب کے ماتھے سے اٹھنے لگی
آسماں آ کے مٹی سے ملنے لگے


فہم و ادراک آزاد ہونے لگے
وحشتِ جبر سے ، ظلمتِ طوق سے

سب دریچے افق کے کھلے آنکھ پر
بھیگی پلکیں نکھرنے لگیں شوق سے

رحمتوں کا کرم بار دریا مرا
چشمہئ آب کوثر بہا ذوق سے


اُس سراپا تجلی کی یاد آگئی
اپنی آزادی جس کی غلامی سے ہے

یہ مناظر کی میٹھی حسیںدلکشی
جس کے پاکیزہ اسم گرامی سے ہے

کائناتِ شبِ تیرہ و تار میں 
روشنی جس کی قرآں کلامی سے ہے


جس نے بس ایک انسان کے قتل کو
ساری انسانیت کا کہا قتل ہے

جس نے مانگا اسی وقت اس کاقصاص
جب کسی بے گنہ کا ہوا قتل ہے

جس کے نزدیک انسانی اعمال میں
جرم کی آخری انتہا قتل ہے


بارگاہِ رسالت میں آنسو






فراتِ بابل  سے چند آنسو

ہوا کہ اشک مسلسل بکھیرتی آئی
اداسیوں بھرے بادل بکھیرتی آئی

دیارِ یار کی ظلمت نصیب ہچکی پر
شبِ سیہ بھی کاجل بکھیرتی آئی

لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ

 صدائیں آتی ہیں شعلوں کے بین کرنے کی
یا آبشار گرے ہے لہو کے جھرنے کی

عجیب ہے شبِ ماتم کہ نوحہ گر ہی نہیں
نئی روایتیں قائم ہوئی ہیں مرنے کی

لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ


دماغ درد کے بولوں سے اٹ گیا اپنا
بدن تمام پھپھولوں سے اٹ گیا اپنا

لکیریں ہاتھ کی بارود لے گیا چُن کر
نصیب توپ کے گولوں سے اٹ گیا اپنا

لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ

بچھا رہی ہے ثریا کے اوج صحرا میں 
لہو کی صبحِ ستم موج موج صحرا میں 

بموں کی آگ سے اپنی زمیں فروزاں ہے
اجالے بانٹتی پھرتی ہے فوج صحرا میں

لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ

لبِ فرات کی گفت و شنید گلیوں میں 
اجل بدست پھرے ہے یزید گلیوں میں

پڑی ہیں شہر میں لاشیں مدنیہ والوں کی
ہوئے حسین کئی پھر شہید گلیوں میں 

لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ



فلسطین سے چند آنسو


طلسمِ شہر نگاراں حصارِ شب میں ہے
فروغِ صبحِ بہاراں حصارِ شب میں ہے

گرائے کون ستم کی بلند دیواریں
ہر ایک دیدہ ئ یاراں حصارِ شب میں ہے

لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ

یہ سر زمین سسکتی بلکتی رہتی ہے
قدم قدم پہ قیامت دھڑکتی رہتی ہے

یہ آسمان بھی دیتا نہیں ہے چھت کا کام
سروں پہ ظلم کی بجلی کڑکتی رہتی ہے

لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ


لہو سے خاک کی تزئین زندگی کیلئے
یہ روز کی نئی تدفین زندگی کیلئے

حصارِ موت میں تیرا ہے قبلہ ئ اول
تڑپ رہا ہے فلسطین زندگی کیلئے

لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ

چراغ اپنے سروں کے جلا کے مجبوراً
گزارتے ہیں برس ابتلا کے مجبوراً

سرنگ دونوں طرف سے ہے بند جیون کی
ضمیر کرتے ہیں خود کش دھماکے مجبوراً

لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ


زیست آباد سے چند آنسو

سیاہ آگ کی برسات لے کے آئی ہے
لہو میں بھیگی ہوئی را ت لے کے آئی ہے

دھماکے ، بھوک ، تفاوت، درندگی ، وحشت
نئی صدی وہی ظلمات لے کے آئی ہے

لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ

حیاتِ دست بریدہ سے پیپ بہتی ہے
ہر ایک زخمِ دریدہ سے پیپ بہتی ہے

بدن ہے آدم و حوا کا چشمہ ئ ناسور
بجائے خون کے دیدہ سے پیپ بہتی ہے

لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ


ترا تھا حکم پسینہ نہ خشک ہو نے دو
اور اس سے پیشتر اجرت کرو ادا ان کو

کیا ہے خشک اجیروں نے خون بھی آقا
ملا نہ پھر بھی مشقت کا کچھ صلہ ان کو

لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ

سرِ معاش تفاوت کا داغ صدیوں سے
پڑاہے فقر کا خالی ایاغ صدیوںسے

کئے ہیں مورچہ ئ لوح پر بھی لاکھوں وار
مگرجلا نہیں اپنا چراغ صدیوں سے

لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ

خداکی مرضی سمجھ کر فریب ِغربت میں
پڑی ہے تیسری دنیانشیبِ غربت میں

سمجھ رہی ہے کہ مالک ہے آسمانوں کی
کہ چار نیکی کے سکے ہیں جیبِ غربت میں

لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ


مثال چاہِ سگاں ارتکازِ زر آقا
ہیں بھن بھناتے جہاں مکھیوں کے پر آقا

ترے غریب ہیں غربت کی آخری حد پر
رئیس اور زیادہ رئیس تر آقا

لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ


منصور آفاق

بارگاہ ِرسالت میں استغاثہ





پائے عابد میں اُدھر درد کی زنجیر بجی
میری آنکھوں میں اِدھروقت کے زنداں اُبھرے 

آب دیدہ میں سلگ اٹھا جہنم کوئی
گرم پلکوں نے دیا اور اذیت کو فروغ 

باڑ کانٹوں کی لپیٹی ہوئی انسانوں سے 
چبھ رہی ہے مرے پہلو میں بڑے درد کے ساتھ

میرے احساسِ سیہ بخت پہ کیا کیا گزری

وہ اُدھر ظلم کے دربار میں زینب پہنچی
میری سوچوں میں اِ دھر عہد کے سلطاں اُبھرے
ذہن میں پھیل گیا قصرِ طباشیر کا خوف 
قتل نامہ نیا جاری ہوا شہرِ شب سے

پھر وہ بیعت سے کسی شخص نے انکار کیا
کربلا دھر میں آباد ہوئی ہے پھر سے

وہ اُدھر خیمے جلائے گئے معصوموں کے
اور اِ دھر راکھ ہوئیں بستیاں بمباری سے

وہ اُدھر فوج صف آرا ہے یزیدیت کی
اور اِدھر میرے نبی (ص) تیری نہتی امت

جنگ جاری ہے وہ ، سچائی کی جاگیر کی جنگ
کتنی صدیوں سے بپا ہے ترے شبیر کی جنگ

پیشِ خدمت ہوں تری بارگہِ رحمت میں
استغاثہ لئے تقدیرِ اذیت کے خلاف
ایک عرضی لئے یزداں کی مشیت کے خلاف

منصور آفاق






درد کا دورانیہ





چارہ ساز بیکساں امداد کر امداد کر
اے مقدس آسماں امداد کر امداد کر

اسلحہ بالکل نیا ڈھالا ہوا ،حیران کن 
سازشیں، دھوکہ دہی ، کالی ملمع کاریاں
ساتھ میں ابلاغ کے قاتل ذرائع اور فوج

دور تک اک اجتماعی المیہ ۔۔۔ کہساروں پر
بڑھ رہا ہے درد کا دورانیہ ۔۔۔ کہساروں پر

طالبانِ دین آئے ہیں۔۔۔ سمندر پار سے


منصور آفاق

لہو کا آئینہ خانہ




طلسم ِ مرگ کے جادومیں محوِ استراحت ہیں
نگر زنبیلِ ظلمت رُو میں محوِ استراحت ہیں

شبیں چنگاریوں کے بستروں میں خواب بنتی ہیں
اندھیرے راکھ کے پہلو میں محوِ استراحت ہیں

خموشی کا بدن ہے چادرِ باردو کے نیچے
کراہیں درد کے تالو میں محوِ استراحت ہیں

پہن کر سرسراہٹ موت کی ، پاگل ہوا چپ ہے
فضائیں خون کی خوشبو میں محوِ استراحت ہیں

کہیں سویا ہواہے زخم کے تلچھٹ میں پچھلا چاند
ستارے آخری آنسو میں محوِ استراحت ہیں
۔۔
ابھی ہو گا کسی بم سے اجالا۔۔ بس ابھی ہوگا
یہ خطہ پُرسعادت ، اے فروغِ دیدہِ ٔ تقویم 

ابھی ہو گا شعاعوں کے لہو سے آئینہ خانہ
مرا دشتِ شہادت ، اے رسولِ کوثر و تسنیم

منصور آفاق

کنکروں کے انتظار میں کچھ بین





مرے مولا یہ بازو دشمنِ امت نے کاٹے ہیں
اجالے مانگتے تھے اس لئے ظلمت نے کاٹے ہیں

مرے مولایہ آنکھیں دستِ باطل نے نکالی ہیں
دفاع اپنا یہ کرتی تھیں سو قاتل نے نکالی ہیں

مرے مولا یہ سینہ ظلم کے خنجر نے چیرا ہے
دھڑکتا تھا مرادل اس لئے پتھر نے چیرا ہے

مرے مولا یہ پائوں آگ کے تودوں نے کچلے ہیں
ابھی ہونے ہیں جو ان تیل کے سودوں نے کچلے ہیں

مرے مولا یہ چہرہ موت کی چیلوں کے نرغے میں
سمندر پار سے آئے ہوئے فیلوں کے نرغے میں 

مرے مولا ابابیلوں کے لشکر بھیج صحرا میں
جنہوں نے رُت بدل دی تھی وہ کنکر بھیج صحرا میں

منصور آفاق


دربارِسالت میں دردنامہ




مرے آقا (ص)مرے مولا(ص)

یہ کیا ۔ ۔ کیسے ستم کی داستاں میرے رگ و پے میں سرایت کر گئی ہے 
کہ تیرے نعت گوکومرثیہ لکھنا پڑا ہے۔
نواح ِ کربلا میں ظلم کی کیسی کہانی 
وقت بُنتا جارہا ہے۔۔
 مجھے لگتا ہے شایدقریہ ئ کرب و بلا کی
 قسمتِ خوں ریزمیں بس مرثیے لکھے ہوئے ہیں 
حسین ابن علی کے خون کی تحریک میں اتنی طوالت کس لئے ہے۔
مجھے اس دشت کی تاریخ کو معلوم کرنا ہے۔ 
 مجھے یہ سوچنا ہے آدمی کے خون کی یہ ریت پیاسی اسقدر کیوں ہے ۔ 
یزیدیت ہمیشہ کیوں اسی کوجنگ کا میداں بناتی ہے۔
یہیںسے باپ کیوںبچوں کی لاشیںاپنے ہاتھوں پر اٹھاتے ہیں ۔
 یہیں پر مائوں کی قسمت میں کیوں لکھا گیا ہے
 کہ جواں بیٹوں کی لاشوں پر مسلسل بین کرنے ہیں ۔۔
وہی کیوں صورتِ احوال پھردشتِ وفا میں ہے
مرآقا مرے مولا
مرے ہارے ہوئے مظلوم دل کو مرثیہ خوانی کی ہمت دے ۔
ہمارے عہد کے اس کربلا پرتیری امت کی یہ مجبوری بھی کیسی ہے
 کہ ہم مرتے ہوئوں پر بین کرنے سے گریزاں ہیں۔
مجھے تیری قسم سب صاحبان ِ حرف گم سم ہیں
یہ ان کی خامشی میں خوف ہے یا درہم و دینار کا لالچ۔۔۔
مرے آقا مجھے کہنے دے یہ نفرت کے قابل ہیں 
قلم کو جو پکڑتی ہیں وہ تینوں انگلیاںبہتر ہے کٹ جائیںکہ سچائی نہیں لکھتیں۔
حسین ابن علی کے مرثیہ خوانوں کی آوازیں سنائی کیوں نہیں دیتیں
نیا اِک کربلا آبادپھر خاکِ نجف پر ہے۔
کوئی جلتے گھروں کے مرثیے لکھے
لہو لتھڑے سروں کے مرثیے لکھے۔۔
لکھے کہ کربلاغاصب کی بیعت کر نہیں سکتی۔
لکھے شبیر کا جو ماننے والا ہے
 وہ توپوں بموںسے ڈر نہیں سکتا۔
لکھے کچھ تو لکھے کہ فاختائیں خون میں ڈوبی ہوئی ہیں۔
لکھے کچھ تو لکھے کس نے یہاں زیتون کی ٹہنی سے بم باندھا ہوا ہے۔
لکھا جائے کہیں کچھ امنِ عالم کی تمنا میں ۔
اُفق پر شام کی سرخی کسی سفاک شب کی پھر بشارت دے رہی ہے۔
مرے آقا مرے مولاانہیں آواز دیتا ہوں 
جو انسانی سروں کی حرمتوں کے گیت لکھتے ہیں۔
جو تہذیبوں کے حامل ہیں۔
جہاں مرتی ہوئی بلی پہ آنکھیں بھیگ جاتی ہے 
وہ جن کے دل دھڑکتے ہیں۔
انہیں آواز دیتا ہوں۔
لکھے کوئی یہ کیسی بد نما تہذیب دنیا پر مسلط ہوتی جاتی ہے۔
جو کالے سونے کی خواہش میں انسانی سروں کو روندتی جاتی ہے ٹینکوں سے
انہیں آواز دیتا ہوں جنہوں نے امن کے نوبل پرائز اپنے سینے پر سجائے ہیں۔
کوئی توبے گناہوں کے لہو آشام موسم پر ذرا بولے ۔۔
 چلو دھیمے سروں میں ہی سہی۔۔۔
آواز تو آئے مگر یہ امن کے پیغام براپنے خدائے ظلم کی ناراضگی سے سہم جاتے ہیں
خدائے ظلم کے باغی قبیلوں کو سلام۔۔
انہیں آواز دیتا ہوں
 محبت کے جو نغمے گنگناتے ہیں۔
 مسیحا کے جو وارث ہیں۔
مسیحا جس نے مُردوں کو دوبارہ زندگی بخشی ۔
کسی کو قتل کرنا اس کے مذہب میں روا ہو ہی نہیں سکتا۔
مسیحا جوفروغِ عشقِ انساں میں صلیبوں پر سجا تھا۔۔۔
جو امن و آشتی کے باب میںاتنازیادہ صبر والا تھا۔
کہ کہتا تھاتمہارے دائیں عارض پراگر تھپڑ کوئی مارے تو تم
 اس کی طرف چپ چاپ بایاں گال بھی کردو۔ 
مگر خاموش کیوں ہیں ابن ِ مریم کو خدائے لم یزل کاکچھ نہ کچھ یہ ماننے والے 
کہ انسانوں کو جرم ِ بے گناہی کی سزائیں مل رہی ہیں۔
نہیں شاید۔۔انہیں محسوس ہوتا ہے 
کہ توپوں سے نکلتی آگ تو تاریکیاں کافورکرتی ہے
بموں کی آتشیں برسات تو اس عہد تازہ کا چراغاں ہے
انہیں آواز دیتا ہوں۔جو کہتے ہیں 
’محبت کا ہے ایماں بجلیوں پر مسکرادینا ۔۔
محبت کا ہے مذہب آگ پانی میں لگا دینا۔
محبت ہونکتے شعلوں کو سینے سے لگاتی ہے ۔ 
محبت آتشِ نمرور میں بھی کود جاتی ہے۔‘
اُٹھو اِس کربلا کی آگ پر پانی نہیں آنسو ہی برسا دو۔۔۔
اُسے آواز دیتاہوں 
کہ شاید انجمن اقوامِ ِعالم نیند سے جاگے۔۔
مگر کیسے۔ ۔۔اسے توظلمتوں کے تازہ رکھوالے نے
 اپنے گھر میں لونڈی کی طرح رکھا ہوا ہے۔
کسی مالک کو اس کی ایک معمولی کینز آخر کہاں تک روک سکتی ہے۔۔
 ۔اُسے آواز دینا خود فریبی کا تسلسل ہے۔
مگر ہر ڈوبنے والاسہارے کیلئے تنکے پکڑتا آرہا ہے۔
انہیں آواز دیتا ہوں جو خود کو خادمِ الحرمین کہتے ہیں۔
مگر اِن بادشاہوں کوتو اے میرے رسول(ص) ِ اقدس و اعظم ! 
ترے معصوم متوالوں کی چیخیں تک سنائی ہی نہیں دتیں۔
مری مدہم صدا اُن کی سماعت میں اتر سکتی ہے کیسے۔۔۔
مرے آقا ! سوا تیرے 
کسے آواز دوں کوئی دکھائی ہی نہیں دیتا۔۔ 
کہوں کس سے کہ ظالم کے پکڑ لے ہاتھ کو جا کر 
ستم کی آخری حدہے ۔
کہیں دنیا یہ کانٹوں سے بھری وادی نہ بن جائے ۔
مجھے بس اتنا کہنا ہے کہ ہراک پھول کو کھلنے کا حق ہے۔۔
 یہ آزادی ہے خوشبو کو کہ ہرگلشن کومہکائے 
طلوعِ صبح کامنظر ہے ہر اِک آنکھ کی خاطر ۔۔ 
ہوا ہر شخص کوسانسیں فراہم کرتی رہتی ہے 
جہاں میں ہر کسی کوپورا حق ہے
 اپنی مرضی کے مطابق زندگانی صرف کرنے کا۔۔۔
جنم جن کو دیا آزاد مائوں نے ۔۔
انہیں طوق ِ غلامی کوئی پہنا ہی نہیں سکتا۔۔
مرے آقا!مری اتنی دعا ہے بس ۔۔
زمیں پر امن کی تہذیب غالب ہو۔
سیہ توپوں کے تیرہ تر دھانوں میں ملائم فاختائوں کا بسیرا ہو۔۔
کوئی زیتون کی ٹہنی کہیں بمبار طیاروں میں اُگ آئے۔
اگر چہ ایسا ہوتا تو نہیں لیکن خدا کے کار خانے میںکبھی یہ ہو بھی سکتا ہے ۔۔
 خدا تو پھر خدا ہے نا۔۔
میر ے آقا مرے مولا
ضرورت ہے تری اُس رحمتہ العالمینی کی
کہ جو سایہ فگن ہے آسمانوں اور زمینوں پر
اسے برسا دے امت کے لہو آباد سینوں پر


منصور آفاق