mansoorafaq.com

پروفیسر منور علی ملک


پروفیسر منور علی ملک منصور آفاق کے نعتیہ مجموعہ عہد نامہ کے متعلق 
لکھتے ہیں

محمد منصور آفاق کا یہ دوسرا مجموعہ نعت دیکھ کر اپنی ایک نعت کا یہ شعر یاد آ رہا ہے کہ یہ آغوشِ مادر کا فیضان ہے ۔۔۔۔۔میں کسی اور کو رہنما کیسے مانوں میری تربیت ہی کچھ ایسی اہوئی ہے ۔مجھے ایک ہی در دکھایا گیا ہے۔میری طرح منصور کو بھی عشق رسول ﷺ مان کے دودھ کے ساتھ موصول ہوا۔میری ماں مجھے انگلی تھام کر اس در پر بٹھا گئی تھی ۔ آج ساٹھ سال بعد بھی میں وہیں بیٹھا ہوں۔ یہی معاملہ منصور کا بھی ہے۔ مرحوم پروفیسر محمد اشفاق چغتائی جیسے دیوانہ عشق مصطفی کو جنم دینے والی ماں سے ہر اولاد کو ورثے میں کچھ اور ملا نہ ملا یہ دولت ضرور عطا ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ روایت شکن منصور نظریاتی نروان کی تلاش میں دہریت اور مارکسزم کے ہلاکت خیز صحرائوں سے بھی بخیر و عافیت لوٹ آیا۔ منصور آفاق کا یہ مجموعہ نعت ٹی ایس ایلیٹ کی (The Waste Land) کا سا منظر پیش کرتا ہے۔ کیونکہ فاختہ کے شکاری اس کے پجاری ہونے کا دعویٰ ہی نہیں کر رہے ، اپنے اس دعوے کو زبردستی منوانے پر بھی مصر ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ فاختائوں کے محافظ بھی منہ مانگا حق خدمت طلب کرکے شکاریوں کو ہر سہولت فراہم کر رہے ہیں۔ منصور آفاق اس ظلمِ عظیم کے خلاف اپنی فریاد خالقِ کائنات کے حضور پہنچانے کے لئے اپنے آقا کے در پر آیا ہے۔ قرآن حکیم میں اہل ایمان کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب تم سے کوئی ظلمِ عظیم سرزد ہو جائے تو معافی اور سزا سے نجات کے لئے رسولؐ کے وسیلے سے اللہ کی طرف لوٹ آئو۔ اور اگر رسول ؐ تمہاری مغفرت کے لئے دعا کریں تو تمہاری سزا ختم ہو سکتی ہے۔ منصور کا یہ مجموعہ نعت اسی قسم کی ایک کوشش ہے جو یقینا کامیاب ہو گی۔

No comments:

Post a Comment