mansoorafaq.com

Sunday 28 October 2012

دربارِسالت میں دردنامہ




مرے آقا (ص)مرے مولا(ص)

یہ کیا ۔ ۔ کیسے ستم کی داستاں میرے رگ و پے میں سرایت کر گئی ہے 
کہ تیرے نعت گوکومرثیہ لکھنا پڑا ہے۔
نواح ِ کربلا میں ظلم کی کیسی کہانی 
وقت بُنتا جارہا ہے۔۔
 مجھے لگتا ہے شایدقریہ ئ کرب و بلا کی
 قسمتِ خوں ریزمیں بس مرثیے لکھے ہوئے ہیں 
حسین ابن علی کے خون کی تحریک میں اتنی طوالت کس لئے ہے۔
مجھے اس دشت کی تاریخ کو معلوم کرنا ہے۔ 
 مجھے یہ سوچنا ہے آدمی کے خون کی یہ ریت پیاسی اسقدر کیوں ہے ۔ 
یزیدیت ہمیشہ کیوں اسی کوجنگ کا میداں بناتی ہے۔
یہیںسے باپ کیوںبچوں کی لاشیںاپنے ہاتھوں پر اٹھاتے ہیں ۔
 یہیں پر مائوں کی قسمت میں کیوں لکھا گیا ہے
 کہ جواں بیٹوں کی لاشوں پر مسلسل بین کرنے ہیں ۔۔
وہی کیوں صورتِ احوال پھردشتِ وفا میں ہے
مرآقا مرے مولا
مرے ہارے ہوئے مظلوم دل کو مرثیہ خوانی کی ہمت دے ۔
ہمارے عہد کے اس کربلا پرتیری امت کی یہ مجبوری بھی کیسی ہے
 کہ ہم مرتے ہوئوں پر بین کرنے سے گریزاں ہیں۔
مجھے تیری قسم سب صاحبان ِ حرف گم سم ہیں
یہ ان کی خامشی میں خوف ہے یا درہم و دینار کا لالچ۔۔۔
مرے آقا مجھے کہنے دے یہ نفرت کے قابل ہیں 
قلم کو جو پکڑتی ہیں وہ تینوں انگلیاںبہتر ہے کٹ جائیںکہ سچائی نہیں لکھتیں۔
حسین ابن علی کے مرثیہ خوانوں کی آوازیں سنائی کیوں نہیں دیتیں
نیا اِک کربلا آبادپھر خاکِ نجف پر ہے۔
کوئی جلتے گھروں کے مرثیے لکھے
لہو لتھڑے سروں کے مرثیے لکھے۔۔
لکھے کہ کربلاغاصب کی بیعت کر نہیں سکتی۔
لکھے شبیر کا جو ماننے والا ہے
 وہ توپوں بموںسے ڈر نہیں سکتا۔
لکھے کچھ تو لکھے کہ فاختائیں خون میں ڈوبی ہوئی ہیں۔
لکھے کچھ تو لکھے کس نے یہاں زیتون کی ٹہنی سے بم باندھا ہوا ہے۔
لکھا جائے کہیں کچھ امنِ عالم کی تمنا میں ۔
اُفق پر شام کی سرخی کسی سفاک شب کی پھر بشارت دے رہی ہے۔
مرے آقا مرے مولاانہیں آواز دیتا ہوں 
جو انسانی سروں کی حرمتوں کے گیت لکھتے ہیں۔
جو تہذیبوں کے حامل ہیں۔
جہاں مرتی ہوئی بلی پہ آنکھیں بھیگ جاتی ہے 
وہ جن کے دل دھڑکتے ہیں۔
انہیں آواز دیتا ہوں۔
لکھے کوئی یہ کیسی بد نما تہذیب دنیا پر مسلط ہوتی جاتی ہے۔
جو کالے سونے کی خواہش میں انسانی سروں کو روندتی جاتی ہے ٹینکوں سے
انہیں آواز دیتا ہوں جنہوں نے امن کے نوبل پرائز اپنے سینے پر سجائے ہیں۔
کوئی توبے گناہوں کے لہو آشام موسم پر ذرا بولے ۔۔
 چلو دھیمے سروں میں ہی سہی۔۔۔
آواز تو آئے مگر یہ امن کے پیغام براپنے خدائے ظلم کی ناراضگی سے سہم جاتے ہیں
خدائے ظلم کے باغی قبیلوں کو سلام۔۔
انہیں آواز دیتا ہوں
 محبت کے جو نغمے گنگناتے ہیں۔
 مسیحا کے جو وارث ہیں۔
مسیحا جس نے مُردوں کو دوبارہ زندگی بخشی ۔
کسی کو قتل کرنا اس کے مذہب میں روا ہو ہی نہیں سکتا۔
مسیحا جوفروغِ عشقِ انساں میں صلیبوں پر سجا تھا۔۔۔
جو امن و آشتی کے باب میںاتنازیادہ صبر والا تھا۔
کہ کہتا تھاتمہارے دائیں عارض پراگر تھپڑ کوئی مارے تو تم
 اس کی طرف چپ چاپ بایاں گال بھی کردو۔ 
مگر خاموش کیوں ہیں ابن ِ مریم کو خدائے لم یزل کاکچھ نہ کچھ یہ ماننے والے 
کہ انسانوں کو جرم ِ بے گناہی کی سزائیں مل رہی ہیں۔
نہیں شاید۔۔انہیں محسوس ہوتا ہے 
کہ توپوں سے نکلتی آگ تو تاریکیاں کافورکرتی ہے
بموں کی آتشیں برسات تو اس عہد تازہ کا چراغاں ہے
انہیں آواز دیتا ہوں۔جو کہتے ہیں 
’محبت کا ہے ایماں بجلیوں پر مسکرادینا ۔۔
محبت کا ہے مذہب آگ پانی میں لگا دینا۔
محبت ہونکتے شعلوں کو سینے سے لگاتی ہے ۔ 
محبت آتشِ نمرور میں بھی کود جاتی ہے۔‘
اُٹھو اِس کربلا کی آگ پر پانی نہیں آنسو ہی برسا دو۔۔۔
اُسے آواز دیتاہوں 
کہ شاید انجمن اقوامِ ِعالم نیند سے جاگے۔۔
مگر کیسے۔ ۔۔اسے توظلمتوں کے تازہ رکھوالے نے
 اپنے گھر میں لونڈی کی طرح رکھا ہوا ہے۔
کسی مالک کو اس کی ایک معمولی کینز آخر کہاں تک روک سکتی ہے۔۔
 ۔اُسے آواز دینا خود فریبی کا تسلسل ہے۔
مگر ہر ڈوبنے والاسہارے کیلئے تنکے پکڑتا آرہا ہے۔
انہیں آواز دیتا ہوں جو خود کو خادمِ الحرمین کہتے ہیں۔
مگر اِن بادشاہوں کوتو اے میرے رسول(ص) ِ اقدس و اعظم ! 
ترے معصوم متوالوں کی چیخیں تک سنائی ہی نہیں دتیں۔
مری مدہم صدا اُن کی سماعت میں اتر سکتی ہے کیسے۔۔۔
مرے آقا ! سوا تیرے 
کسے آواز دوں کوئی دکھائی ہی نہیں دیتا۔۔ 
کہوں کس سے کہ ظالم کے پکڑ لے ہاتھ کو جا کر 
ستم کی آخری حدہے ۔
کہیں دنیا یہ کانٹوں سے بھری وادی نہ بن جائے ۔
مجھے بس اتنا کہنا ہے کہ ہراک پھول کو کھلنے کا حق ہے۔۔
 یہ آزادی ہے خوشبو کو کہ ہرگلشن کومہکائے 
طلوعِ صبح کامنظر ہے ہر اِک آنکھ کی خاطر ۔۔ 
ہوا ہر شخص کوسانسیں فراہم کرتی رہتی ہے 
جہاں میں ہر کسی کوپورا حق ہے
 اپنی مرضی کے مطابق زندگانی صرف کرنے کا۔۔۔
جنم جن کو دیا آزاد مائوں نے ۔۔
انہیں طوق ِ غلامی کوئی پہنا ہی نہیں سکتا۔۔
مرے آقا!مری اتنی دعا ہے بس ۔۔
زمیں پر امن کی تہذیب غالب ہو۔
سیہ توپوں کے تیرہ تر دھانوں میں ملائم فاختائوں کا بسیرا ہو۔۔
کوئی زیتون کی ٹہنی کہیں بمبار طیاروں میں اُگ آئے۔
اگر چہ ایسا ہوتا تو نہیں لیکن خدا کے کار خانے میںکبھی یہ ہو بھی سکتا ہے ۔۔
 خدا تو پھر خدا ہے نا۔۔
میر ے آقا مرے مولا
ضرورت ہے تری اُس رحمتہ العالمینی کی
کہ جو سایہ فگن ہے آسمانوں اور زمینوں پر
اسے برسا دے امت کے لہو آباد سینوں پر


منصور آفاق

No comments:

Post a Comment