سنگ بستہ چٹانیں ہری ہو گئیں
مردہ شاخوں پہ خورشید کھلنے لگے
قم بادنی کا فن آگیا وقت کو
چاک صدیوں کے لمحوں میں سلنے لگے
صبح مغرب کے ماتھے سے اٹھنے لگی
آسماں آ کے مٹی سے ملنے لگے
فہم و ادراک آزاد ہونے لگے
وحشتِ جبر سے ، ظلمتِ طوق سے
سب دریچے افق کے کھلے آنکھ پر
بھیگی پلکیں نکھرنے لگیں شوق سے
رحمتوں کا کرم بار دریا مرا
چشمہئ آب کوثر بہا ذوق سے
اُس سراپا تجلی کی یاد آگئی
اپنی آزادی جس کی غلامی سے ہے
یہ مناظر کی میٹھی حسیںدلکشی
جس کے پاکیزہ اسم گرامی سے ہے
کائناتِ شبِ تیرہ و تار میں
روشنی جس کی قرآں کلامی سے ہے
جس نے بس ایک انسان کے قتل کو
ساری انسانیت کا کہا قتل ہے
جس نے مانگا اسی وقت اس کاقصاص
جب کسی بے گنہ کا ہوا قتل ہے
جس کے نزدیک انسانی اعمال میں
جرم کی آخری انتہا قتل ہے
No comments:
Post a Comment